اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا !
یہ مدینہ کا مقدس شہر ہے، جو رسول اللہ الاعظم محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے نام "مدینۃ النبی" کے نام سے مشہور ہے، یہ مکہ مکرمہ کے بعد مسلمانوں کا دوسرا اہم اور مقدس شہر ہے۔ یہاں دنیا بھر کے مسلمان زیارت کے لئے آتے ہيں، شہر کی زیارت کرتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ) کے مرقد منور کی زیارت کرتے ہيں اور "مسجد النبی" میں نماز ادا کرتے ہیں۔ لیکن آل سعود کی حکمرانی میں اس شہر کا آج کا حال بالکل مختلف ہے۔
شہر سپاٹ لائٹس سے روشن ہو چکا ہے، قریبی صحرا میں "صحرائی ڈسکو" کا اہتمام کیا گیا ہے جہاں سے موسیقی کی صدائیں فضاؤں کو ہلا رہی ہیں، اور نیم برہنہ سیاح عورتیں گرم ریت پر رقص کر رہی ہیں۔ یہ امریکی ریاست نیواڈا کا شہر لاس ویگاس نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ مسجد النبی کے سائے میں اور مسلمانوں کے دوسرے مقدس شہر میں ہو رہا ہے۔
ایک سعودی شہری "رحمان عبدالعزیز" کہتا ہے: صحرائی ڈسکو کا پروگرام ـ جس کی تشہیر کوئی مہینوں سے عالمگیر ہو چکی تھی ـ سعودی حکومت کی باضابطہ اجازت نامے سے منعقد ہؤا ہے"۔
سعودی عرب میں آل سعود کی خاندانی یا قبائلی بادشاہت ہے، یہاں سنسر شپ بہت شدید ہے اور بہت کم خبریں وائرل ہوتی ہیں لیکن ہم نے گذشتہ مہینوں ميں ـ غزہ میں مسلمانوں کے قتل عام کے عین وقت میں ـ ہم نے کتوں کے عالمی مقابلے بھی دیکھے، ریاض سیزن بھی دیکھا جہاں امریکی گلوکارہ جنیفر لوپز کی شرکت کی خبریں عام ہوئیں، مسجد الحرام میں بے پردہ عورتوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے واقعے نے مسلمانوں کے جذبات کے مجروح کیا، مدینہ میں بھی ریڈ سی فلم فیسٹیول کا انعقاد ہوئی جس میں شریک ہونے والی بے پردہ اداکاراؤں کی تصاویر نے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔
اب مدینہ کے مشرق میں جبل الفیل (ہاتھی کا پہاڑ) مصیبت بن گیا ہے؛ جہاں پرتَعَیُّش ہوٹل تعمیر کئے گئے ہیں اور بظاہر صرف سیاحوں کے لئے شراب و کباب کا اور 'شبانہ سروسز' اہتمام کیا جاتا ہے، اور اس علاقے میں عیاش سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔
ایک عراقی زائر "حسن السودی" انتہائی غصے کے عام میں کہتا ہے: "14 گھنٹوں تک بلا ناغہ ناچتے ہیں، شراب نوشی کرتے ہیں اور وہ بھی مسجد النبی سے چند ہی قدموں کے فاصلے پر، لگتا ہے کہ سعودی حکومت اگلے دنوں میں مسجد الحرام میں عین طواف کے وقت بھی ڈسکو کا اہتمام کریں گے!"۔
کہا جاتا ہے کہ ان فاحش تبدیلیوں کا وجہ سعودی وژن-2030 کا منصوبہ ہے جس سے آل سعود کے کئی اقتصادی اور سیاسی مقاصد ہیں: وہابی طرز کی مذہبی انتہاپسندی سے چھٹکارا پانا اور ماڈرن دکھانا، تیل کی آمدنی سے وابستگی کم کرنا اور سیاحوں کی توجہ سرزمین مقدس کی طرف مبذول کرانا۔
معاشیات کے ایک سعودی ماہر "مصطفیٰ البیس" کا کہنا ہے کہ "یہ پروگرام سیاحوں کو سعودی عرب کی طرف کھینچ لانے کے لئے حکومت کی باضابطہ پالیسی کا حصہ ہیں اور مدینہ بھی اس پالیسی میں شام ہے۔ یہ سلسلہ نہ صرف کبھی رکے گا نہیں بلکہ اس کو مزید توسیع دی جائے گی"۔
دوسری طرف سے اسلامی امور کے ایک سعودی ماہر "عبداللطیف الشیخ" کا کہنا ہے کہ "مکہ اور مدینہ معمول کے جغرافیائی علاقے نہیں ہیں، بلکہ دین، ایمان اور اسلامی تاریخ کی علامتیں ہیں۔ ان مقدس علاقوں میں ڈسکو، شراب نوشی، ناچ گانا اور فسق و فجور کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی روحانی اور معنوی شناخت کو مکمل طور پر مٹا دیا جائے"۔
اسلامی امور کے ماہرین سعودی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کے سامنے بے بس ہوکر کہتے ہیں: "اگر سعودی حکمران تفریحی تقریبات پر بضد ہیں تو انہیں ریاض جیسے شہروں میں منتقل کریں، اور اسلامی تعاون تنظیم کو بھی مقدس مقامات کے تحفظ کے لئے ایک نگران ڈھانچہ قائم کرے۔ اور دوسری طرف سے سعودی حکومت بھی حرمین شریفین کی حرمت کے تحفظ کے لئے اپنی اقتصادی پالیسی سازیوں میں ایک ثقافتی ضابطہ اور دائرہ وضع کرے"۔
نکتہ:
یقینا ہر چھوٹی بڑی بات پر کفر کے فتوے دینے والے مولوی حضرات پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس طوفان بدتمیزی پر رد عمل ظاہر کریں۔ وہ جب کفر کے فتوے دیتے ہیں تو احادیث شریفہ کے حوالے بھی دیتے ہیں اور جب مسلمانوں کے سر قلم کرتے ہيں تو قرانی آیات کی تلاوت بھی کرتے ہيں تو اب کیا وہ وقت نہیں ہے کہ ان ہی کے حوالوں میں بہت زیادہ بروئے کار لائی جانے والی حدیث کے تحت سعودیوں کے خلاف محض زبانی کلامی احتجاج کریں؟
"عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صلى الله عليه [وَآلِهِ] وَسَلَّمَ: إِذَا ظَهَرَتِ اَلْفِتَنُ - أو قالَ الْبِدَعُ - فَلْيُظْهِرِ العالِمُ عِلمَهُ فَمَنْ لَمْ يَفعَل ذلِكَ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ لَهُ صَرفاً وَلَا عَدلاً؛ [1]
معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جب فتنے ظاہر ہوجائیں ـ یا فرمایا بدعتیں ظاہر ہوجائیں ـ تو علماء کا فرض ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کریں [اور فتنوں اور بدعتوں کا انسداد کریں] تو اگر کوئی عالم ایسا نہ کرے تو اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، خدا نہ تو اس کی واپسی یا توبہ قبول کرتا ہے، نہ ہی معاوضہ اور فدیہ"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
[1]۔ یہ حدیث صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن الترمذی، سنن النسائی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، سنن الدارمی، مصنف ابنی ابی شیبہ، فتح الباری، سنن البیہقی، مسند البزاز سمیت متعدد مصادر میں نقل ہوئی ہے۔
آپ کا تبصرہ